تحریر : حسیب اعجاز عاشر
ارے اللہ کے بندے ۔۔۔کیا تو نے اُس بے گناہ کو سرِبازار جلتے نہیں دیکھا تھا؟کیا اُس آگ نے تجھے جہنم کی آگ یاد نہیں دلائی تھی؟کیا تو نے نہر میں نہانے والے اپنے دوست کو ڈوبتے نہیں دیکھا؟تیری نظروں کے سامنے ایک جوان بس تلے کُچلا گیا۔وہ جوان تو بھی ہو سکتا تھا۔۔ اگلے چوراہے پر کوئی دوسری بس تجھے بھی کچل سکتی ہے۔ کیااس منظر سے قبر میں دب جانا یاد نہیں آیا؟۔۔۔۔لیکن تیرے رب کو تجھ سے پیار تھا۔نہ تجھے جلایا گیا، نہ ڈوبویاگیا نہ کچلا گیا۔۔اُس نے مہلت دی۔۔پھر مہلت دی۔۔بار بار مہلت دی۔۔مگر تو نے زندگی کی حقیقت نہیں جانی۔۔بڑا غرور تھا اپنی بھری جوانی پے،اپنی طاقت پر،اپنی دولت پر،اپنی زمینوں پر،اپنے وارثوں پر،اپنی شہرت پے،اپنے تعلقات پر۔۔۔یہی سوچا کہ۔۔۔بڑی پڑی ہے زندگی۔۔۔۔
طویل علالت کے بعد ۔جب تیری بوڑھی ماں نے تیری باہنوں میں دم توڑ رہی تھی۔۔۔اے اللہ کے بندے ۔۔تو اُس کی آہ آہ سے کیا سمجھا؟ کو وہ درد سے کرا رہی ہے؟۔۔ارے نہیں۔۔۔وہ تو اللہ کی ولی تھی۔۔۔اُسے توکانٹا چبھنے تک کی تکلیف نہیں دی گئی۔۔۔اُس کا درد سے تڑپنا تو تیرے لئے تھا۔اُس کی بھوک پیاس تو تیرے لئے تھی۔۔اُس کے چہرے پر چھلکتی بے بسی و لاچاری تو تیرے لئے تھی۔اُسکے زخموں سے رِستا خون تو تیرے لئے تھا۔اُس کی آنکھوں سے بہتی نمی تو تیرے لئے تھی۔۔۔کہ تو اپنا وقت یاد کر لے۔۔مگر تجھے تو ابھی کہاں مرنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نے مفلوجوں کو دیکھا، اندھوں کو دیکھا، بے اولادوں کودیکھا، غیربوں کو دیکھا، فقیروں کو دیکھا، بھوکوں کو دیکھا، بے گھروں کودیکھا۔۔سب کچھ دیکھا مگردنیا کی حوس میں بس اپنی نعمتوں کو دیکھنے سے اندھا ہو گیا۔۔۔۔۔ اب دیکھ ۔۔۔اِدھر دیکھ۔شہر کے مہنگے ہسپتال میں قابل ترین ڈاکڑ تیری نبض دیکھ رہا ہے۔۔۔ادھر سُن۔۔تیری ڈانٹ ڈپٹ کھانے والا تیرا بوڑھا باپ تیرے سرہانے بیٹھا اپنے رب سے کیا مانگ رہا ہے’’یا اللہ میری حیاتی وی میرے پُتر نوں لا دے‘‘۔ادھر دیکھ ۔۔۔جسے پاؤں کی جوتی سمجھتا رہا وہ تیرے ظلم کی ماری تیری بیوی تیرے بچے کو گو د لئے کھڑی تجھے تک رہی ہے اور اللہ سے تیری لمبی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے۔بھائی آج بھی تیرے خوف سے دروازے کے باہرہی کھڑا ہے۔۔
جسے سر کا بوجھ سمجھ کر رخصت کیا وہ بہن اپنے گھر میں جھولی پھیلائے تیری سلامتی کی دعائیں کر رہی ہے۔دوستوں کو تو اُنکے کاموں سے فرصت نہیں ملی۔اقارب توپہلے ہی تیرے طعنوں کے مارے تھے۔نوکر تو ویسے ہی تیرے ستم سے چھٹکارا چاہتے تھے، انہیں کیا غرض کہ تو جیئے یا مرے۔دیکھ تیری بنکوں میں پڑی سودسے کمائے کروڑوں روپے تجھے ایک سیکنڈ کی مزید مہلت نہیں دلوا سکتے۔۔آج کوئی تجھے بچانے والا نہیں۔کوئی تیرے ساتھ جانے والا نہیں۔۔۔۔۔۔
بڑا مسلمان مسلمان بنا پھرتا تھا۔۔توکیوں تیرے لب پے آج کلمہ نہیں اُتر رہا۔۔۔ارے ابنِ آدم نہیں ۔۔بڑی دیر کر دی تو نے۔گزار دی ساری حیاتی ہسی ، قہقوں، موج مستیوں، عیاشیوں ا ور ہلے گلوں میں ۔۔۔آج مجھے تیرے جسم میں سے روح کو آہستہ آہستہ کھیچ دینے کا حکم ہے ۔
کل جسکا نام رکھ کر مٹھائیاں بنٹی تھیں،بس چند لمحے میں اُسکو ’’میت‘‘ کا نام دے دیا جائیگا۔۔۔اب رونے سے کیا ملے گا۔یہ وقت تو آنا ہی تھا۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ تیری زبان آج بندہے۔ اور تو یہ بھی کہہ نہیں سکتا۔۔۔۔کہ دنیا والوں، مجھے دیکھ کر عبرت پکڑو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post a Comment