کراچی: پاکستان زرعی تحقیقی کونسل نے وائرس سے محفوظ اعلیٰ معیار کے کیلوں کی کاشت کیلیے ٹشو کلچر ٹیکنالوجی کے ذریعے چار نئی اقسام کے کیلوں کے پودے تیار کرلیے ہیں جو کیلے کی روایتی اقسام کے مقابلے میں 4گنا زائد پیداوار دیں گے۔
سندھ میں گرم (ٹراپیکل) اور نیم حاری (سب ٹراپیکل) علاقوں کے پھل کاشت کیے جائیں گے جن میں انناس، رنگوٹان، مینگو اسٹین اور گیل فروٹ شامل ہیں۔ پاکستان زرعی تحقیقی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد نے ایکسپریس سے بات چیت میں بتایا کہ قدرتی آفات اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے گزشتہ کچھ سال سے سندھ میں کیلے کی کاشت اور پیداوار بہت متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان زرعی تحقیقی کونسل نے اس پھل کی غذائی افادیت اور اقتصادی اہمیت کے پیش نظر بیماریوں سے پاک اعلیٰ پیداواری اقسام چین سے درآمد کرکے نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے کاشت کا طریقہ متعارف کرایا ہے جسے فروغ دے کر بیماریوں سے پاک، زیادہ لذت بخش، غذائیت سے بھرپور کیلے کی فصل تیار کی جاسکتی ہے۔ ٹیشو کلچر سے تیار کیلے کی نئی ورائٹیز کے پودے سندھ آباد گار بورڈ کے ذریعے کاشتکاروں میں تقسیم کیے جارہے ہیں۔
اس سال 15ہزار پودے تقسیم کیے جائیں گے تاہم کیلے کی کاشت کے اگلے سیزن تک ایک لاکھ پودوں کی کھیپ تیار ہوگی جو سیزن کے موقع پر کاشتکاروں کو فراہم کردی جائیگی۔ ٹیشو کلچر کے ذریعے تیار کیے گئے پودوں سے کیلے کی کاشت سے نہ صرف کاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ ہوگا بلکہ کیلے کی برآمد بھی ممکن ہوگی جس سے ملک کو کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کیلے کی پیداوار میں اضافے کیلیے متعدد منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ قومی زرعی تحقیقی مرکز نے ٹشو کلچر ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ لاکھوں کی تعداد میں کیلے کی اعلیٰ پیداواری اقسام کے پودوں کی نرسری تیار کی ہے اور انہیں آسان نرخ پر کسانوں تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کیلیے کاشتکاروں کی عملی تربیت بھی کی جارہی ہے۔
کیلے کی وائرس فری چار نئی اقسام میں بصرائی، ولیم 8818، برازیلین اور پسانگ شامل ہیں۔ اس سے قبل پاکستان میں روایتی طور پر دو اقسام کے کیلے کاشت کیے جارہے تھے جن میں بیماریوں سے مزاحمت کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے فصل کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔ ٹیشو کلچر کے ذریعے تیار کی گئی نئی اقسام روایتی کیلے کے مقابلے میں 4گنا زائد پیداوار دیں گے جس سے مقامی منڈی میں کیلے کی رسد بڑھا کر قیمت کو مناسب سطح پر برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ ٹشو کلچر سے تیار کیے گئے پودے ہر قسم کی بیماریوں سے پاک ہوتے ہیں، یہ یکساں قدوقامت کے ہوتے ہیں اور زیادہ پیداوار دیتے ہیں ٹشو کلچر کے پودے پیداوار کا جلد آغاز کرتے ہیں اور تھوڑی زمین میں زیادہ پودے لگائے جاسکتے ہیں جس کا کاشتکاروں کو فائدہ ہوتا ہے۔
یہ پودے پورا سال دستیاب ہوتے ہیں اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان ہوتی ہے۔ ان پودوں کی گرم مرطوب علاقوں میں جہاں آب وہوا مناسب ہو سال میں دوفصلیں بھی ممکن ہیں۔ ڈاکٹر افتخار احمد نے بتایا کہ سندھ کی سرزمین انتہائی زرخیز ہونے کے ساتھ ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل خطوں میں پائے جانیوالے پھلوں کیلیے بھی ماحول انتہائی سازگار ہے اسی لیے پاکستان زرعی تحقیقی کونسل پاکستان میں ٹرپیکل اور سب ٹراپیکل خطوں کے پھل کاشت کرنے کے منصوبے پر بھی کام کررہا ہے۔ ان پھلوں میں انناس، رنگوٹان، مینگو اسٹین اور گیل فروٹ شامل ہیں۔ یہ پھل دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک یہ پھل برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ کمارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان زرعی تحقیقی کونسل نے ان پھلوں کی سندھ میں آزمائشی کاشت کی ہے جس کے بہت حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
اب ان پھلوں کی تجارتی سطح پر کاشت کیلیے بھرپور تعداد میں پودے تیار کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ دو سے تین سال میں سندھ میں انناس سمیت مذکورہ پھلوں کے پودے لارج اسکیل پر تیار کیے جائیں گے جس سے ان پھلوں کی تجارتی پیمانے پر کاشت کی جاسکے گی۔ ڈاکٹر افتخار نے کہاکہ سندھ کی سرزمین اعلیٰ اقسام کے انگور کی کاشت کیلیے بھی موزوں ہے اور ایک پروگریسو فارمر نے سندھ میں انگور کی کاشت کی ہے جس کی فصل مئی میں بازار میں آجائیگی۔
Post a Comment