تحریر :ایم سرور صدیقی
آدھی رات کا وقت تھا اچانک آنکھ کھل گئی سماعت پر ایک آہٹ حاوی ہوئی تو میری چھٹی حس بیدار ہو گئی میں چونک گیا
رات کے اس عالم میں کون ہو سکتا ہے؟ آنکھیں نیم وا کر کے دروازے کی طرف دیکھا جو آہستہ آہستہ کھل رہا تھا عجیب حلیے میں ایک قوی ہیکل میرے بیڈ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا میں نے پوری زندگی ایسی صورت نہیں دیکھی تھی پراسرار سی صورت۔۔ ریڈھ کی ہڈی سے سردی کی ایک لہر اٹھی خوف ،تجسس اور حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلارہ گیا منٹوں اور سیکنڈوں میں پورا جسم جیسے ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے میں نہا گیاہو میں اٹھ بیٹھا ڈرے ڈرتے پوچھا کون ہو؟۔۔مجھے محسوس ہوا میں ہی نہیں میری آواز بھی لرز رہی تھی۔۔ ” ملک الموت۔۔ اس نے پھٹی پھٹی آواز میں جواب دیا ”کیوں آئے ہو۔؟۔۔میں نے ڈوبتے دل سے پھر سوال کیا”تمہاری ماں کو لے جاناہے۔۔۔اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔۔۔میرا دل ڈوب گیا۔۔آنکھیں نم ہوگئیں
”ایسا مت کرنا۔۔میں گڑگڑا یا مجھے اپنی ماں سے بہت پیار ہے

”میں اکیلا نہیں جا سکتا ۔۔۔وہ بولا میں جان لے کر ہی جائوں گا ” چلو ۔۔۔ ایک بات مان لو میں نے بے ساختہ کہا میرے ساتھ ایک سودا کرلو”وہ کیا ؟۔۔۔ اس نے استفسارکیا ”میری ماںکی بجائے مجھے ساتھ لے جائو میں نے روتے ہوئے کہا ”اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ وہ بولا میں تو تمہیں ہی لینے آیا تھا لیکن تمہاری ماںنے تم سے پہلے سودا کرلیا۔۔۔احساس کی دہلیزپرماں بیٹے کی ایک دوسرے سے محبت جھنجھوڑکررکھ دیتی ہے واقعی اب دنیا میںمامتا ہی ایک رشتہ خالص رہ گیاہے مجھے اچھی لگتی ہیں میرے ہاتھ کی سبھی انگلیاں جانے کس انگلی کو پکڑ کر میری ماںنے مجھے چلنا سکھایا کہتے ہیں بچے کی پہلی یونیورسٹی ماں کی گود ہوتی ہے جس میں پڑھا ہوا سبق ساری زندگی یاد رہتا ہے۔۔۔ کبھی کبھی سوچتاہوں ماں بھی کیسا عجیب رشتہ ہے دکھ تکلیف میں ہمیشہ ماں ہی یاد آتی ہے دل کی گہرائیوں سے نکل کر لبوں پر ایک ہی صدا مچل جاتی ہے ہائے ماں!شاید اسی لئے مادھولعل حسین نے کہا تھا
مائیں نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی

انسان کی شخصیت پر باپ سے زیادہ ماں کی چھاپ گہری ہوتی ہے ماں تو اپنے بچوںکے چہرے دیکھ کر ان کے دل کا حال جان لیتی ہے اولاد کیلئے ماں سے بہتر کوئی مرشد نہیں ہوتا۔۔ایک دن میں نے اپنی ماں سے پوچھاجن کی ماں نہیں ہوتی ان کیلئے دعا کون کرتاہے؟۔۔۔وہ مسکرا کر بولی دریا اگر سوکھ بھی جائے تو ریت سے نمی نہیں جاتی۔۔۔ سچ ہے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔۔۔باپ کے انتقال کے بعدایک بیٹے نے اپنی ماں کوشہرکے اولڈہائوس میں داخل کروادیاوہ سال بعد ماں کی خیر خیریت دریافت کرنے اس سے ملنے چلاجاتاایک دن اولڈہائوس سے فون آیا اس کی ماں کی طبیعت انتہائی خراب ہے وہ پہنچا تو ماںآخری سانسوںپر تھی ماںکی حالت دیکھ کر اس کی آنکھوںسے بے ساختہ آنسو نکل پڑے اس نے منتظم سے کہا میری ماں کو کسی اچھے ہسپتال میں علاج کیلئے شفٹ کردو جتنا خرچ آئے گا میں برداشت کروں گا یہ سن کر ماں نے اشارے سے
بیٹے کو منع کردیا۔۔۔پھرمیں کیا کروں ؟بیٹے نے پوچھا ماں میں تیرے لئے کیا کر سکتاہوں؟
ماں بولی بیٹا اس اولڈ ہائوس میں نئے پنکھے لگوادو یہ اکثر خراب رہتے ہیں ۔۔۔بیٹا حیران رہ گیا بولا ماں آپ نے اتنے سال یہاں گذاردئیے کبھی کچھ نہیں مانگا اب آخری وقت میںیہ فرمائش کیوں؟۔۔۔۔ماں بولی میں تو اپنے لئے کچھ نہیں مانگتی۔۔بیٹا میں نے جیسے تیسے کرکے زندگی کے دن پورے کرلئے لیکن ڈرتی ہوں کل جب تمہارے بچے تمہیں اولڈہائوس میں داخل کرواکرچھوڑجائیں گے تب تجھ سے گرمی برداشت نہیں ہوگی۔۔۔ یہ سن کربیٹا وہیں گرگیاآنکھوں میں آنسو آگئے اس نے ماںکے بیڈکو پکڑ ا ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ماں مجھے معاف کردو لیکن وہ ہر ضرورت اورہر احساس سے بے نیازہو چکی تھی۔۔۔کہتے ہیں جس گھرمیں ماں نہیں ہوتی وہاں قبرستان کی سی ویرانی ہوتی ہے دنیا میں سب سے حساس دل ماںکا ہوتاہے جو اپنے بچے کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتاہے اس کے باوجود بہت کم لوگ سوچتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے سے تھے کوئی ہماری بات سمجھنے سے قاصرتھا
لیکن ایک ہستی ایسی تھی جو ہمارے ٹوٹے پھوٹے ۔۔بے معنی الفاظ بھی سمجھ جاتی تھی کتنی عجیب بات ہے کہ آج ہم میں سے اکثر لوگ اس ہستی کو کہتے ہیں آپ نہیں جانتیں۔۔۔تمہیں کیا پتہ؟۔۔میرے معاملات میں نہ بولیں۔۔دخل نہ دیں۔آپ کے خیالات پرانے،،باتیں دقیانوسی اورسوچ صدی پیچھے ہے یا آپ کی باتیں میری سمجھ سے بالا ہیں۔۔کاش اولاد یہ احساس کرے۔اس سے پہلے یہ رشتہ ختم ہو جائے ہم اپنے والدین کے تابعداربن جائیں تو کل پچھتاوے کی آگ میں جلنے سے بچا جا سکتاہے ماںدنیا کی سب سے انمول چیزہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں والدین کی زندگی میں قدرکریں اپنی خوشیاں اولادپرقربان کرکے انہیں معاشرے میں قابلِ فخر بنانے کی جدوجہدکرنے والوںکو خراج ِ تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔۔۔زندگی کا حاصل خوشی ، چاہت، عشق ، دیوانگی صرف ماں ہے جوسراپا دعاہے۔۔۔۔خلوص اور محبت ہے آج کی دنیا میں اگراب بھی کوئی خالص رشتہ ہے تو وہ مامتاکا رشتہ ہے اسی لئے کبھی کبھی سوچتاہوں ماں سے کیسا عجیب رشتہ ہے۔۔
امیر ہو یا غریب، بچہ ہو یا بوڑھا۔۔۔ عورت ہو یا مرد۔ سب کی ایک ہی قدر مشترک ہے ماں سے درد کا رشتہ ہے اسی لئے سب کو دکھ تکلیف میں ہمیشہ ماں ہی شدت سے یاد آتی ہے بیشترکو اس کا مطلق احساس تک نہیں ۔۔۔لمحہ ٔ فکریہ تو یہ ہے کہ ہمیں ان کے جانے کے بعدضمیر کچوکے لگاتاہے یا اولاد بدسلوکی کرتی ہے یاحالات دیکھ کر احساس ہوتاہے ہم اپنے ماں باپ کی بہتر انداز میں خدمت کرتے تو کتنا اچھا ہوتا کچھ لوگ کہتے ہیں بچپن غربت میں گذرا والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر اچھی تعلیم وتربیت کی لیکن جب ہم کسی قابل ہوئے اس سے پہلے وہ دنیا سے چلے گئے آہ !افسوس ہم ان کی خدمت نہ کر سکے یہ دکھ،حسرت اور افسوس اپنی جگہ پر لیکن ایسا ہو توکیا ہوسکتاہے۔۔8سالہ لڑکے کی ماں فوت ہوگئی اس کے باپ نے دوسری
شادی کرلی۔۔۔
ایک دن باپ نے بیٹے سے پوچھا تمہیں پہلے والی ماں اور نئی ماں میں کیا فرق محسوس ہوا؟۔۔۔بیٹا معصومیت سے بولا پہلے والی ماں جھوٹی تھی اور نئی ماں سچی۔ باپ نے حیرانگی سے پوچھا وہ کیسے؟؟؟”پہلے جب میں شرارتیں کرتا تھا تو۔۔ بیٹے نے جواب دیا۔۔۔ ماں کہتی تھی تو شرارتوں سے باز نہ آیا تو میں آج تجھے کھانا نہیں دوں گی میں پھر بھی شرارتیں کرتا رہتا پھر وہ مجھے میرے دوستوں کے گھروں سے ڈھونڈکر لاتی اور اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھی۔۔۔لیکن اب نئی ماں بھی یہی کہتی ہے تو شرارتوں سے باز نہ آیا تو میں تجھے کھانا نہیں دوں گی۔۔۔ اور میں آج دو دن سے بھوکا ہوں۔

Post a Comment