لفظ حجاب(عربی)اور لفظ پردہ(فارسی) زبان سے تعلق رکھتے ہیں اور تقریباََ ہم معنی ہیں ان جیسے کئی اور الفاظ بھی مثلاََبرقع ،گھونگٹ،پردہ،آڑ،حیا،شرم ،نقاب اور حجاب لغت میں ملتے ہیں۔خواتین کے لئے لفظ پردہ غیرمحرم مردوں سے اپنے جسم کو چھپانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تا کہ وہ مردشیطانی اوہام سے محفوظ رہیں اور ان عورتوں کی عزت و عصمت محفوظ رہے۔حجاب ایک وسیع المعنٰی لفظ ہے اور اس کی ضِد کشف ہے۔لفظ حجاب قرآنِ کریم میں سات بار استعمال ہوا اور (سورۃ احزاب،59)کا مفہوم ہے کہ اے نبیﷺ!اپنی بیویوں ،صاحب زادی اور مسلمان عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادر کا ایک حصہ اپنے چہروں پر ڈالے رہیں۔یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے لئے اپنے سر اور چہرہ کو چادر میں چھپانا لازم ہے۔ آج کے جدید دور میں پردہ کی بہت سی اقسام مثلاََ برقع، اسکارف، موزے ،دستانے اور دیگر لباس پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ان تمام صورتوں میں عورت کی سہولت مقصود ہے۔ شرم آتی ہے کہ زمانہ جاہلیت کی عورتیں بھی بے پردہ رہتی تھی لیکن وہ ایسا لباس پہنتی تھیں کہ اُن کی پشت ڈھکی اور سینہ کھلا رہتا تھا اور آج جدّت پسندی کی لعنت نے خواتین کو پشت چھپانے سے بھی قاصر کر دیا ہے اور وہ نیم برہنہ حالت میں بازاروں میں ایسے پھرتی ہیں کہ جیسے پردہ اُنکی ضرورت نہیں اورپھر عصمت زنی کا ذمہ دار مردوں کو قرار دیتی ہیں۔جبکہ معاشرہ میں عام ہونے والا گناہ کبیرہ (زِنا)ایک عام سی بات بن چکاہے اور اسکی وجہ بے پردگی ہے ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ مرد کے شہوانی جذبات عورت کی عریانیت کودیکھنے سے مشتعل ہوتے ہیںیعنی مرد کے جنسی جذبا ت عورت کو دیکھ کر مشتعل ہوتے ہیں جبکہ عورتیں عموماََ بذریعہ بصارت مشتعل نہیں ہوتیں۔اسی لئے اسلام میں عورتوں کو پردہ کا حکم ملا ہے نہ کہ مردوں کو، ویسے مردوں کو نظریں جھکانے کا حکم ہے۔کوئی مانے نہ مانے اسلام میں پردہ فرض ہے۔در اصل بے پردگی کی وجہ سے مرد و خواتین کے ملنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں اور پردہ دار خاتون سے کوئی زیادہ ملنے اور بات کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔معاشرہ میں موجود کو ایجوکیشن سسٹم بھی اس گناہ کا بہت بڑا سبب ثابت ہوا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں عشق و محبت کے جذبات میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ یہ لڑکیاں کب عصمت باختہ ہو جاتی ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔دنیا کے وہ علاقے جہاں مرد و خواتین کے ملنے کے مواقع زیادہ ہیں اُن علاقوں میں جنسی بے راہ روی کی شرح بہت زیادہ ہے جیسے امریکہ کے علاقے کیلیفورنیا کی مثال لے لی جائے وہاں زِنا اور طلاق کی شرح باقی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔اور پھر آج کے اس جدّت پسند دور میں بے پردگی کو بہت سی حمائتیں حاصل ہیں ایک میل کزن اپنی فی میل کزن سے گھنٹوں بیٹھ کر گپ شپ کرتا ہے اور اُسے کو ئی نہیں پوچھتا کہ کزن بیٹھے ہیں جبکہ اسلام تو جواں بہن کو جوان بھائی کے پاس بھی تنہائی میں بیٹھنے سے منع کرتا ہے نہ جانے کیوں ہم ایڈوانس سوچ اور ترقی کی آڑ میں اپنے بچوں کو نشاط و سرور کی انجمنوں سے نکال نہیں پاتے اور فرینکنس کی آڑ میں جب بچیاں اپنی قیمتی متاع گنوا بیٹھتی ہیں تو غیرت کے نام پر اُنہیں قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔کبھی میری اِن ماؤں بہنوں نے سوچا کہ زمانہ قدیم کی عورت کے ساتھ کیا کیا سلوک کئے جاتے رہے ہیں۔ کیا اُن کو زندہ درگورنہیں کیا جاتا رہا۔اُنکی عصمت کو بازاروں میں نیلام نہیں کیا جاتا رہا یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو اس کے مقام سے روشناس کروایا اور معاشرہ میں عزت دی اب یہ اِس کی اپنی مرضی ہے کہ گھر کی ملکہ بن کر زندگی بسر کرے یا پھر رونقِ بازار بن کر۔اس حقیقت سے بھی منہ نہیں پھیرا جا سکتا کہ معاشرہ کا حُسن بھی عورت سے ہی قائم ہے اور تمام کی تمام رعنائیاں عورت کی پُر خلوص قربانیوں اور لازوال جدوجہد میں پوشیدہ ہے۔ وہ عورت ہی تو تھی جس نے ہمیں جابر بن حیان،محمد بن قاسم ،بوعلی سیناجیسی ہستیاں پرورش کر کے دیں۔اس حقیقت کو اسلام سے بڑھ کر کون جان سکتاہے اور اسلام نے ہی تو علم کے ساتھ عمل کرنے کا حکم د ے کر تکمیلِ معاشرہ کی ہے۔ اب جب فرنگی نسل کو پتہ چلا کے مسلمان قوم میں موجود جذبہ کو ہم شکست نہیں دے سکتے تو انہوں نے اور محاز کھولا اور ہمارے ایمانوں کو کمزور کرنے کا پلان مکمل کر لیاکیونکہ انکو پتہ چل چکا تھا کہ یہ قوم اِس عقیدہ پر قائم ہے کہ میدان جنگ میں مارے گئے تو شہید اور بچ گئے تو غازی کا مقام حاصل ہو گا ………!تو با لآخرفرنگی زہن اس سوچ تک پہنچا کہ مسلمانوں کو شکست خوردہ اور محکوم بنانے کا واحد حل انہیں میدانِ جنگ سے نکا ل کر عیاشی، بے حیائی،عریانیت،سستی اور کاہلی کی راہ پر ڈال دیا جائے۔ اب اس ٹارگٹ کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے عورت کو اس کے اصل مقام سے ہٹانا ضروری ہے اور اس طرح عورت اس میدان کی مرکزی کردار قرار پائی۔اگر آج کے اس معاشرہ کو میں کچھوا اور خرگوش کی اس کہانی کے مترادف کہوں تو کچھ غلط نہ ہو گاآج کا مسلمان اپنے اسلاف اور بزرگوں کے کارناموں کی میٹھی لوریا ں سُن کر ایسے خواب خرگوش میں گم ہے کہ جیسے اِسے خبر تک نہ ہو کہ فرنگی کچھوا کتنی دوری طے کر چکا ہے اب جب اس سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑ کر اٹھایا تو یہ ہڑبڑا کر ایسے کودنے لگی اورترقی کی دوڑ میں فرنگی کچھوؤں سے آگے نکلنے کے چکر میں اُنہیں کی پیروی کرتے ہوئے اونچی اونچی چھلانگیں لگانا شروع کر دیں اور ان چھلانگوں کی آڑ میں ہر وہ چیز خود سے الگ کرتے چلے گئے جس کو اس دوڑ میں ہم نے رکاوٹ محسوس کیا یہاں تک کہ شرم و حیاء اور لباس کو بھی ۔۔حیاء اس قلبی کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان ناپسندیدہ کاموں اور باتوں سے اجتناب کرتا ہے۔جس شخص میں حیاء ہوتی ہے وہ نہ تو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور نہ ایسا کوئی کام کرتا ہے جس سے اللہ اور اسکا رسولﷺ ناراض ہو۔جنسیت ایک مضبوط ترین جبلت ہے اس کو اگر کنٹرول میں رکھا جائے تو ایک مضبوط معاشرہ کی بنیا د قائم ہوتی ہے اور اگر یہی بے لگام ہو جائے تو معاشرہ طرح طرح کی برائیوں سے بھر جاتاہے ۔ اسی لئے تو معاشرتی زندگی کو اسلام کے تابع کر دیا گیا ہے آپؐنے فرمایا کہ ہر دین کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف شرم و حیاء ہے۔شرم و حیاء ایمان کا خاصہ ہے، ایمان کا مقام جنت ہے اوربے حیائی اور بد کاری دوزخ میں لے کر جانے والے ہیں۔فحاشی عیب ہے اور شرم و حیاء زینت ہے۔جس میں فحاشی ہو گی اُس کے عیب ظاہر ہونگے،اللہ تعالیٰ سے جب کوئی بندہ ہاتھ پھیلا کر بھلائی مانگتا ہے تو وہ اُسے نامرادنہیں لوٹاتا۔آپؐ کا فرمان ہے کہ حیاء ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں ہے اور فحش گوئی جفاسے ہے اور جفا دوزخ میں ہے۔ شرم و حیاء کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے اجسام اور خیالات کو اُ ن ضروری پردوں میں پاک و طاہر رکھیں جن کا حکم ہمیں ملا تبھی ہم ایسے معاشرہ کی تکمیل کر پائیں گے جو معاشرہ مثالی اور مکمل ہوگا۔

Post a Comment