اپنے اندر ڈھونڈے سے بھی تیرا نشاں نہ ملا
ہم دل کے راستوں پہ تجھے کھوجتے رہے
کیا غم ہستی ، یاغم جاناں، یا غم روز گار؟
ہم مستقل ہی تیری قسم سوچتے رہے
تم نے تو عادتا چپ ہی سادھ لی
بس ہم ہی تیری جگہ بولتے رہے
کتنی ہے محبت ، کتنا ہے غم، گذری باتوں کا
ہم لفظوں میں جذبوں کو تولتے رہے
کیا آج بھی نہ سنو گے تم میری داستاں
ہم راز دل غیروں کے آگے کھولتے رہے
Post a Comment